طلاق سرٹیفکیٹ کیوں ضروری ہے اور طلاق سرٹیفکیٹ یونین کونسل سے کیسے بنوایا جائے؟

طلاق دینا مرد کا شرعی حق ہے لیکن یہ کام دین اسلام میں ناپسندیدہ کاموں میں سے ایک کام ہے. لہذا طلاق کا فیصلہ کرتے ہوئے سوچ و بچار سے کام لیں جذبات میں آکر فیصلہ مت کریں. اب آپ کو طلاق دینے کا قانونی طریقہ بتا دوں۔ اگر شوہر اپنی بیوی کو طلاق دے گا تو Muslim Family law ordinance 1961 کے تحت وہ شخص طلاق دینے کے بعد متعلقہ یونین کونسل کو بتائے گا مطلب نوٹس بھیجے گا کہ اس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی. نوٹس ملنے کے بعد متعلقہ یونین کونسل ایک ثالثی کونسل تشکیل دے گی۔ یہ ثالثی کونسل شوہر اور بیوی کے نمائندگان پر مشتمل ہوگی. یہ نمائندے شوہر اور بیوی کے قریبی عزیز، والدین اور بھائی ہونگے. چئیرمین یونین کونسل یا سیکرٹری یونین کونسل بھی اسی ثالثی کونسل کا حصہ ہوگا. یہ ثالثی کونسل میاں بیوی کے درمیان صلح کروانے کی کوشش کرے گی اگر صلح ہو جاتی ہے تو دی گئی طلاق غیر موثر ہو جائے گی اور میاں بیوی بغیر نکاح کیے اکٹھے رہ سکتے ہیں اور اگر راضی نامہ نہ ہوا تو یونین کونسل کو نوٹس ملنے کے 3 ماہ بعد طلاق موثر ہو جائے گی اور متعلقہ یونین کونسل طلاق سرٹیفکیٹ جاری کر دے گی. اگر عورت نے عدالت کے ذریعے خلع لی ہے تو عدالتی ڈگری متعلقہ یونین کونسل کو جائے گی اور عدالتی ڈگری کے 3 ماہ بعد متعلقہ یونین کونسل طلاق سرٹیفکیٹ جاری کر دے گی۔
طلاق سرٹیفکیٹ کیوں ضروری ہے؟
طلاق سرٹیفکیٹ ایک ثبوت ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی طلاق یافتہ ہے یا نہیں. مرد دوسری شادی کرنا چاہے یا عورت تو وہ نکاح کے ٹائم اپنا طلاق سرٹیفکیٹ پیش کرے گی جس سے ثابت ہو کہ وہ طلاق یافتہ ہیں. نکاح نامے کے ایک کالم میں لکھنا پڑتا ہے کہ آیا دلہا اور دلہن سابقہ شادی شدہ تو نہیں۔ اگر شوہر نے اپنی بیگم کو طلاق دے دی لیکن یونین کونسل نوٹس نہیں بھجوایا اس صورت میں مرد کو Muslim Family law ordinance 1961 کے سیکشن 7 کے تحت جرمانہ اور قید کی سزا ہوسکتی ہے. سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے PLD 2016 457 SC میں قانون وضع کر دیا کہ شوہر پر لازم ہے وہ طلاق دے تو اپنی بیوی اور متعلقہ یونین کونسل کو نوٹس بھیجے بذریعہ رجسٹری. زبانی طلاق بیوی پر اثرانداز نہیں ہوگی اور بیوی حقدار ہوگی کہ وہ شوہر سے سابقہ خرچہ لے کیونکہ شوہر یہ نہیں کہہ سکتا میں نے اتنا عرصہ پہلے طلاق دے دی تھی. اس لئے اب شوہر کے لیے لازمی ہے بیوی اور یونین کونسل کو بذریعہ نوٹس بتائے۔

0 comments:

Post a Comment

Powered by Blogger.

Case Law Search