دنیا بھر کی طرح پاکستان بھر میں طلاق کا رجحان بہت زیادہ بڑھ گیا ہے، جس کی بنیادی وجوہات اعتماد اور ذہنی ہم آہنگی کا فقدان، معاشی مسائل اور عدم برداشت ہیں۔ طلاق جسے کسی دور میں ایک قابل نفرت عمل سمجھا جاتا تھا، اب ایک فیشن بن کر ہمارے خاندانی نظام کی جڑیں کھو کھلی کر رہا ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں سے شروع ہونے والے اختلافات غصے ، غلط فہمی اور جلد بازی کے باعث گھر اجڑنے پر ختم ہو رہے ہیں جس سے معاشرے میں بے پناہ مسائل جنم لے رہے ہیں، خاندانی نظام جو مشرق کا حسن تھا اسے بڑی تیزی سے گھن لگتا جا رہا ہے۔ طلاق سے ٹوٹنے والے رشتے سے صرف دو افرا د ہی نہیں بلکہ ا ن کے بچے اور دونوں خاندان متاثر ہوتے ہیں۔
فاضل جج صاحبان کا اچھا اقدام ہے کہ میاں بیوی کو باہمی اختلا فات حل کرنے کا بھر پور موقع دیتے ہیںفیملی کورٹس کمپلیکس سرگودھا کی عمارت کا اندرونی منظر انتہائی جاذب نظر ہے ،کمپلیکس میں آویزاں پینٹنگزمیں طلاق کے بعدبچوں پہ گزرنے والے تکلیف دہ مناظر کو انتہائی مہارت سے پیش کیا گیا ہے
ملک بھر کی عدالتوں میں اس وقت بھی فیملی مقدمات کی بھر مار ہے، خاندانی جھگڑوں کی وجہ سے اب تک لاکھوں خاندان برباد ہوچکے ہیں۔ یہ جھگڑے جب خاندانی اور پنچائیتی سطح پر حل نہیں ہو پاتے تو بات عدالتوں تک پہنچ جاتی ہے اور اکثر اوقات قصہ علیحدگی پر ہی ختم ہوتا ہے، ستم ظریفی یہ ہے کہ اس سماجی اور معاشرتی مسئلے کے حل میں نہ تو کسی حکومتی ادارے کو دلچسپی ہے اور نہ ہی کسی سیاسی اور سماجی تنظیم کو؟ یہاں یہ کہنا بھی بیجا نہ ہو گا کہ باہمی محبت اوربرداشت میں کمی بھی اس کی سب سے بڑی وجہ ہے اور ٹی وی ڈرامے جس طرح میاں بیوی کے اختلافات کو ہوا دیتے ہیں اور ان کی بنیاد پر کہانیاں لکھی جا رہی ہیں یہ بھی بگاڑ کی بہت بڑی وجہ ہیں۔ایسے میں کہیں سے ہوا کاخوشگوار جھونکا آ ئے تو دل و جان معطر ہو جاتے ہیں۔
جی ہاں !بار ایسو یسی ایشن کی گہما گہمی میں سینئر وکلاء سے نئے فیملی کورٹس کمپلیکس سرگودھا کی تعریف سن کر نا صرف حیرت ہوئی بلکہ عرصہ سے فیملی جھگڑوں کے جلد اور منصفانہ حل کی جو خواہش ایک عرصہ سے دل میں چھپی ہو ئی تھی اچانک ابھر کر سامنے آ گئی، جم خانہ کلب سے نکل کر براستہ پل کچہری کی طرف جاتے ہوئے جوڈیشل کمپلیکس کی پر شکوہ اور خوبصورت سبزہ زار کے ساتھ ایک نئی تعمیر شدہ عمارت کا دلکش منظر متاثر کن تھا۔ فیملی کورٹس کمپلیکس کے مین دروازے کے دائیں طرف ایک خوبصورت فریم میں معصوم بچوں کی طرف سے عمارت کے افتتاح کی تصویر نصب تھی جو عمارت کے مقاصد کی نشاندہی کر رہی تھی ۔شاید یہ پہلی عمارت ہے جس کا افتتاح عدلیہ یا انتظامیہ کی کسی نامور شخصیت کی بجائے ان بچوں نے کیا ہے جو ماں باپ کے جھگڑوں کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ فیملی کورٹس کمپلیکس کی عمارت کا اندرونی منظر انتہائی جاذب نظر ہے ۔ کمپلیکس میں آویزاں ہر پینٹنگ ، یہاں کی ہر شے حتیٰ کہ در ودیوار بھی باتیں کرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں جو دیکھنے والے کے دل و دماغ میں احساس اور فکر مندی کی شمع روشن کرتے ہیں، میاں بیوی کی لڑائی ، دونوں کے درمیان علیحدگی اور طلاق کی صورت میں ننھے اور معصوم بچوں پر کیا گزرتی ہے اور میاں بیوی بذات خود پچھتاوے کی آگ میں کس طرح جھلستے ہیں ان تما م تکلیف دہ مناظر کو ان پینٹنگز میں اتنی فنکار انہ مہارت کے ساتھ سمویا گیا ہے کہ دیکھنے والے کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں اور ایک ایک پینٹنگ دیکھنے والے کے دل و دماغ میں دیر تک گھنٹیاں بجاتی رہتی ہے۔
کمپلیکس کا پورا ماحول انسان کو ان تما م پہلوؤں پر ایک نئے زاویے سے سوچنے پر مجبورکر دیتا ہے جس پر ہم اکثر سوچتے ہیں اور کسی مثبت حل کے متمنی ہوتے ہیں، ہم سلجھاؤ کے خواہشمند تو ہوتے ہیں لیکن کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو پاتے۔
اللہ تعا لی نے انسان کو اپنا نائب اور اشرف المخلوقات بنایا لیکن اس حضر ت انسان نے چاند اور ستاروں پر تو کمندیں ڈال لیں مگر اکثر اوقات دلوں کو تسخیر کرنے میں بری طرح ناکام دکھائی دیتا ہے، چھوٹی باتیں بڑے بڑے طوفانوں کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہیں جس کے نتیجے میں پھولوں سے زیادہ نازک اور کلیوں سے زیادہ کومل ننھے اور معصوم بچوں کا مستقبل گردش زمانہ کی نذر ہو جاتا ہے، گھریلو جھگڑوں کی وجہ سے روزانہ کئی خاندان ذہنی اذیت سے دو چار ہوتے رہتے ہیں اور میاں بیوی کا جھگڑا بچوں کے مستقبل تاریک کر دیتا ہے۔ میاں بیوی کے درمیان ناچاقی اور روز روز کی لڑائی کے باعث معصوم بچے ایسے ذہنی کرب میں مبتلا رہتے ہیں کہ وہ عمر بھر کے لئے نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں۔ طلاق کی صورت میں تو بچے دوراہے پر آجاتے ہیں۔ ماں بچوں کو اپنی
طر ف اور باپ اپنی جانب کھینچتا ہے۔ ایسے میں بچے تقسیم ہو کر رہ جاتے ہیں اور ساری زندگی ذہنی دباؤ کا شکار رہتے ہیں تو اس وقت سب کی امیدوں کا آخری سہارا فیملی جج ہوتا ہے۔ جب گھریلو جھگڑوں او ر مقدمہ بازی سے بچوں پر پڑنے ولے منفی اثرات کا شعور اجاگر کیا جاتا ہے تو فریقین سلجھاؤ کے آپشن کو خوش دلی سے قبول کر لیتے ہیں۔ فیملی کورٹس کمپلیکس سرگودھا کے قیام کے پیچھے ایک اعلیٰ سوچ کار فرما نظر آئی ہے کہ یہ صرف ایک عمارت نہیں بلکہ اس کمپلیکس میں واقع عدالتوں کے ججز بھرپور کوشش کر رہے ہیں کہ ان کے پاس دائر مقدمات میں فریقین کی صلح ہو جائے، جس کیلئے ججز فریقین کو پورا موقع دیتے ہیں اور ایسے فریقین جن کے بچے ہوں کو سمجھایا جاتا ہے کہ اپنے لئے نہیں تو اپنے بچوں کیلئے طلاق لینے اور دینے سے اجتناب کریں، فیملی کورٹس کے ججز کا سب سے اچھا اقدام یہ ہے کہ میاں بیوی کو قانون کے مطابق اپنے اختلا فات حل کرنے کا بھر پور موقع دیا جاتا ہے۔
فیملی ججز ان کے اختلافات دور کروانے کیلئے مصالحت اور ثالثی کے مروجہ طریقہ کار اختیار کرتے ہیں اور ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ نہ تو بچوں کو والدین سے محروم ہونا پڑے اور نہ میاں بیوی میں جدائی ہو۔ طلاق کی شرح کم کرنے کے لئے فیملی کورٹس سرگودھا کے ججز انسانی ہمدردی کے جذبے کے تحت مصالحانہ کردار کے ذریعے خاندان کو ٹوٹنے سے بچانے اور معصوم بچوں کو عمر بھر کے ذہنی کرب اور احساس محرومی سے محفوظ رکھنے کیلئے بھر پور کوشش کر رہے ہیں۔
فیملی کورٹس کا ڈیکورم نہایت متاثر کن ہے اور کورٹس کے عملہ کے کمروں میں نظم وضبط دیکھ کر ایک عجب قسم کی سرشاری کا احساس ہوتا ہے۔ یہ فیملی کمپلیکس اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کہ پنجاب میں پہلی دفعہ ان عدالتوں میں مقدمات کی سماعت کیلئے وقت مقرر کر دیا جاتا ہے جس سے نہ صرف فریقین بلکہ مقدمے کے وکلا کو بھی بروقت پیش ہونے میں سہولت رہتی ہے اور فریقین انتظار کی کوفت سے بچ جاتے ہیں۔ مصالحت کا جدید طریقہ کار اپناتے ہوئے فیملی ججز مقدمات کے میرٹ پر فیصلے کو یقینی بنارہے ہیں جس سے فریقین نگرانی کے اخراجات اور کوفت سے بھی بچ رہے ہیں۔ باپ کے مالی معاملات اور جائیداد چھپانے کی صورت میں عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ کے فیصلہ جات کی روشنی میں ان کی مالی حیثیت کے تعین کیلئے عدالت جدید سائنسی ذرائع سے شہادت اکٹھی کرتی ہے، دیکھنے میں آیا کہ جن بچوں کا خرچہ فکس ہو جاتا ہے،
ان کو رقم بینک اکائونٹس، منی آرڈر اور دیگر جدید ذرائع سے ٹرانسفر کرانے کی طرف لوگوں کو مائل کیا جا رہا ہے تا کہ سائلین کو عدالتوں کے چکر لگانے اور وقت کے ضیاع سے نجات مل سکے، جبکہ جہیز کے سامان کی واپسی کیلئے یہ عدالتیں فریقین کی باہمی مشاورت سے بیلف مقرر کر کے تسلیم شدہ سامان کی بروقت واپسی یقینی بنا رہی ہیں۔ فریقین کو اس بات کا احساس دلایا جاتا ہے کہ ان کی علیحدگی کے باوجود بچے کو ماں اور باپ دونوں کی ضرورت ہے اور کسی ایک کی کمی بچے کی نفسیات اور کردار پر منفی اثرات مرتب کر ے گی۔ فریقین کو عدالتی کمپلیکس کے بجائے گھر پر ملاقات کے فوائد و ثمرات سے آگاہ کیا جاتاہے جبکہ یہ بات بھی دیکھنے میں آئی کہ ماں باپ سے علیحدہ ہونے والے بچوں کے مقدمات کیلئے فریقین کو ماں، باپ کسی رشتہ دار یا دوست احباب جس پر فریقین کو اعتماد ہو یا فریقین متفق ہوں کے ذریعے ان کے ہاں ملاقات کرانے پر قائل کیا جاتا ہے۔
فیملی کورٹس کمپلیکس سرگودھا کے در و دیوار پر آویزاں پینٹنگز آنے والے سائلین کو اہم نوعیت کا پیغام دیتی ہیں ۔طلاق کا دعویٰ کرنے والی کئی پڑھی لکھی خواتین ان تصاویر سے متاثر ہو کر اپنے شوہروں سے صلح کر کے بچوں کے ساتھ خوش و خرم آباد ہو چکی ہیں، اس فیملی کورٹس کمپلیکس کی وجہ سے 2021 کی نسبت 2022 میں طلاق کی شرح میں بڑی حد تک کمی دیکھنے میں آئی ہے، جبکہ سال رواں 2023 میں اب تک یہاں پانچ عدالتوں میں چلنے والے طلاق کے کیسز میں تا دم تحریر ایک بھی طلاق نہیں ہوئی جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ پنجاب بھر کی فیملی کورٹس کو مصالحت اور ثالثی کے مروجہ اقدامات پر عمل کرنے کی اشد ضرورت ہے، اگر ملک بھر کی فیملی کورٹس اسی طریقہ کار کے مطابق کام کرنا شروع ہو جائیں تو یہ بات دعوے سے کہی جا سکتی ہے کہ ملک میں طلاق کی شرح میں بڑی حد تک کمی واقع ہو سکتی ہے، جس سے لوگوں کے گھر اور خاندان اجڑنے سے بچ سکتے ہیں۔اگر ایسا ہو جائے تو نا صرف خاندان اجڑنے بچ جائیں گے بلکہ طلاق کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی دشمنیوں میں بھی کمی واقع ہو جائے گی اور حکومت اور اعلیٰ عدلیہ کو عوام اور ملک کی بہتری کیلئے فیملی کورٹس کمپلیکس سرگودھا کی طرز پر فیملی مقدمات کے حل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
0 comments:
Post a Comment