وفاقی شرعی عدالت نے ٹرانس جینڈر ایکٹ کی سیکشن 2 ،3 اور 7 کو اسلامی تعلیمات کے خلاف قرار دے دیا۔ وفاقی شرعی عدالت نے فیصلہ سنا دیا کہ خواجہ سرا اپنی جنس تبدیل نہیں کرا سکتے۔

 PLD 2023 FSC 301

خواجہ سراؤں کے حقوق سے متعلق ٹرانس جینڈر ایکٹ کے خلاف درخواست پر قائم مقام چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت سید محمد انور اور جسٹس خادم حسین نے فیصلہ سنادیا۔
وفاقی شرعی عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ خواجہ سرا خود کو مرد یا عورت نہیں کہلوا سکتے۔
وفاقی شرعی عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا ہے کہ حکومت خواجہ سراؤں کو تمام حقوق دینے کی پابند ہے، اسلام خواجہ سراؤں کو تمام انسانی حقوق فراہم کرتا ہے۔
’کئی عبادات کا تعلق جنس سے ہے‘
وفاقی شرعی عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ جنس کا تعلق انسان کی بائیو لاجیکل جنس سے ہوتا ہے۔ نماز، روزہ اور حج سمیت کئی عبادات کا تعلق جنس سے ہے، انسان کی جنس کا تعین اس کے احساسات سے نہیں کیا جاسکتا۔
سیکشن 2 اور 3 اسلامی تعلیمات کے خلاف قرار
وفاقی شرعی عدالت نے ٹرانس جینڈر ایکٹ کی سیکشن 2 اور 3 کو اسلامی تعلیمات کے خلاف قرار دے دیا۔
وفاقی شرعی عدالت نے کہا ہے کہ ٹرانس جینڈر ایکٹ کی پوری سیکشن 2 شریعت کے خلاف نہیں، خواجہ سرا تمام بنیادی حقوق کے مستحق ہیں جو آئین میں درج ہیں۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ خواجہ سراؤں کی جنس کا تعین جسمانی اثرات پر غالب ہونے پر کیا جائے گا، جس پر مرد کے اثرات غالب ہیں وہ مرد خواجہ سرا تصور ہوگا اور جس پر عورت کے اثرات غالب ہوں گے وہ خاتون خواجہ سرا تصور ہوگا۔
وفاقی شرعی عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ شریعت کسی کو نامرد ہو کر جنس تبدیلی کی اجازت نہیں دیتی، جنس وہی رہ سکتی ہے جو پیدائش کے وقت تھی۔
وفاقی شرعی عدالت کا کہنا ہے کہ جسمانی خدوخال کے مطابق کسی کو مرد یا عورت نہیں کہا جاسکتا، جسمانی خدوخال اور خود ساختہ شناخت پر کسی کو ٹرانس جینڈر قرار نہیں دیا جاسکتا۔
سیکشن 7 بھی اسلام و شریعت کے خلاف قرار
عدالت نے فیصلے میں ٹرانس جینڈرز پروٹیکشن ایکٹ کے سیکشن 7 کو بھی اسلام و شریعت کے خلاف قرار دیا ہے۔
’وراثت میں مرضی کا حصہ لیا جاسکتا تھا‘
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سیکشن7 میں مرضی سے جنس کا تعین کر کے وراثت میں مرضی کا حصہ لیا جاسکتا تھا، وراثت میں حصہ جنس کے مطابق ہی مل سکتا ہے، مرد یا عورت خود کو بائیو لاجیکل جنس سے ہٹ کر خواجہ سرا کہے تو یہ غیر شرعی ہوگا۔
شریعت کورٹ نے ٹرانس جینڈر ایکٹ کی سیکشن 2 ایف کالعدم اور ایکٹ کے تحت بننے والے رولز بھی غیر شرعی قرار دے دیے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ غیر شرعی قرار دی گئی دفعات کی کوئی قانونی حیثیت نہیں
Federal Shariat Court declared Section 2(f) containing definition of “gender identity”, Section 2(n)(iii), Section 3 and Section 7 of “The Transgender Persons (Protection of Rights) Act, 2018” as against the injunctions of Islam as laid down in the Holy Quran and Sunnah of the Holy Prophet (ﷺ) and will cease to have any legal effect immediately. Hence, the Shariat Petitions challenging the Transgender Persons (Protection of Rights) Act, 2018 are accepted in view of above terms. Consequently, the provisions of the Transgender Persons (Protection of Rights) Rules, 2020 relating to the above mentioned Sections of the impugned Act, which have been declared as against the injunctions of Islam, shall also cease to have legal effect.

0 comments:

Post a Comment

Powered by Blogger.

Case Law Search