#جمع_بین_الاختین_یعنی_دو_سگی_بہنوں کو ایک ہی ساتھ #نکاح میں رکھنے کے #کیس میں #ملزم کی #ضمانت کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ کا ایک اہم #فیصلہ !
.......................….................................................
فیصلے کی تفصیل اور حقائق کی طرف جانے سے پہلے اس کیس میں عدالت عالیہ کے سامنے دو بنیادی سوالات تھے جو کہ زیل ہیں :
ب ) کیا کسی ایسی مطلقہ بیوی جب کہ وہ ابھی عدت میں ہو تو اس کی بہن یعنی سالی کے ساتھ نکاح کی گنجائش ہے ؟
سوالات کی وضاحت کے بعد کیس کے مختصر حقائق کچھ یوں ہیں کہ :
گیارہ اگست دو ہزار تئیس کو ضلع شیخوپورہ کے تھانہ صدر میں صابر علی نامی شکایت کنندہ کچھ یوں رپورٹ کرتا ہے کہ اس کی بہن حمیرا بی بی کی شادی آج سے نو سال پہلے مصور حسین نامی شہری کے ساتھ ہوئ تھی جس کے نتیجے میں ان کے دو بچے بھی ہیں لیکن تیس جولائی دو ہزار تئیس کو مصور حسین یعنی میرا بہنوئ ، میری چھوٹی بہن سمیرا بی بی بعمر اٹھارہ سال کو زیادتی اور زبردستی شادی کی غرض سے اغوا کرلیتا ہے جس پر پولیس کی جانب سے مجموعہ تعزیرات پاکستان کے دفعہ تین سو پینسٹھ بی کے تحت مصور حسین کے خلاف مقدمہ درج کر دیا جاتا ہے۔ شکایت کنندہ یعنی صابر علی کے بقول مصور حسین کی دوسری شادی نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ شریعت کے بھی منافی ہے کیونکہ شریعت کے مطابق ایک ہی وقت میں دو سگی بہنوں کو ایک ہی وقت میں نکاح میں رکھنا حرام ہے۔ دوسری طرف ملزم مصور حسین کے مطابق اس نے کوئ جرم نہیں سرزد نہیں کیا کیونکہ اس کے مطابق اس نے دس جولائی کو حمیرا بی بی کو طلاق دی جبکہ سترہ جولائی کو اس نے حمیرا کے ساتھ نکاح کیا ہے اور دوران تفتیش اس نے نہ صرف نکاح نامے بلکہ طلاق کے متعلق بھی کاغذات مہیا کئے۔
عدالت عالیہ نے فیصلے کی ابتداء اپنے سامنے موجودہ سوالات میں سے سوال نمبر ایک سے کیا ہے جو کہ زیل ہے:
کیا ایک ہی وقت میں دو سگی بہنوں کو نکاح میں رکھا جا سکتا ہے ؟
عدالت نے اس سوال کے جواب میں اپنے تفصیلی بحث کا آغاز نکاح کی تعریف اور حقیقت سے کیا ہے اور اس ضمن میں یہ قرار دیا ہے کہ نکاح نہ صرف ایک سماجی بلکہ مقدس معاہدہ بھی ہے۔ اس کے بعد عدالت نے غیر ازدواجی تعلقات کی حرمت پر اسلامی نکتہ نظر سے ایک خوبصورت بحث باندھی ہے اور اس کو اسلام کے بنیادی اصولوں کے خلاف قرار دیا ہے۔ نکاح کی تعریف ، حقیقت اور اہمیت کے بعد عدالت نے محرمات کا رخ کیا ہے اور اس حوالے سے لاہور ہائی کورٹ کے مشہور زمانہ فیصلے افتخار نزیر خان کیس کا حوالہ دے کر لکھا ہے کہ تقریبآ انیس اقسام کی عورتیں محرمات میں شمار ہوتی ہیں یعنی وہ ایسی عورتیں ہیں جن کے ساتھ نکاح حرام ہے۔ محرمات کے بعد عدالت نے محرمات کی دونوں اقسام یعنی عارضی محرمات ( غیر مؤبد ) اور ابدی ( مؤبد ) محرمات پر بھی تفصیلی روشنی ڈالی ہے اور غیر مؤبد کی اقسام میں باقی اقسام کے علاؤہ دو بہنوں کو بیک وقت میں جمع کرنا بھی زکر کیا ہے۔
مؤبد اور غیر مؤبد محرمات کی وضاحت کے بعد عدالت نے نکاح کے حکم یعنی صحیح ، فاسد اور باطل پر پر ایک نہایت ہی خوبصورت پیراگراف لکھا ہے اور یہ قرار دیا ہے کہ اسلامی اصطلاحات کو ہمیشہ اصل حالت میں ہی لکھنا چاہیے کیونکہ اصطلاحات کے ترجمے سے اصلی مقصد پورا نہیں ہو سکتا جو کہ اکثر اوقات غلط فہمی کو جنم دیتا ہے۔ یہاں پر عدالت نے صراحت کے ساتھ یہ قرار دیا ہے کہ " فاسد " کو " irregular" کے ساتھ مشابہ نہیں قرار دیا جا سکتا۔ اس کے بعد عدالت نے نکاح صحیح ، فاسد اور باطل کا جائزہ ان کے احکامات اور نتائج کی روشنی میں لیا ہے جو کہ یقیناً ایک لمبے بحث کا متقاضی ہے۔ فاسد نکاح کے حوالے سے فیصلے میں تفصیلی بحث کی گئی ہے جس کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ خلوت صحیحہ کے بغیر فاسد نکاح میں نہ تو مہر لازمی ہے اور نہ ہی عدت لیکن اگر خلوت صحیحہ وقوع پذیر ہو تو پھر نہ صرف مہر لازمی ہوتا ہے بلکہ عدت کا گزارنا بھی لازم ہوتا ہے لیکن فاسد نکاح کرنے پر احکام زنا لاگو نہیں ہوتے لیکن تعزیری سزا پھر بھی ممکن ہے۔ فاسد نکاح کرنے کی صورت میں جب فساد معلوم ہو جائے تو فورا علیحدگی اختیار کرنی چاہیے اور اگر فریقین پھر بھی علیحدہ نہیں ہوتے تو پھر قاضی کو چاہیے کہ نہ صرف ان کو الگ کرے بلکہ تنسیخ نکاح بھی کرے۔ یہاں پر عدالت نے نہ صرف ہدایہ ، کنز الدقائق ، وقایہ اور محمڈن لا کا حوالہ بھی دیا ہے۔
اس انتہائی اہم بحث کا خلاصہ عدالت نے کچھ یوں نکالا ہے کہ ایک ہی وقت میں دو سگی بہنوں کو نکاح میں رکھنا حرام ہے لیکن اس میں اختلاف یہاں پر ہے کہ کیا یہ باطل کے حکم میں آئے گا یا پھر فاسد کے دائرہ کار میں تو اس حوالے سے عدالت نے لکھا ہے کہ جمھور کی رائے میں یہ فاسد شمار ہوگا اور اس کے لئے عدالت نے سید امیر علی پر انحصار کیا ہے اور یہاں پر یہ بھی لکھا ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی رائے میں دو سگی بہنوں کو بیک وقت نکاح میں رکھنے پر زنا کے احکام تو لاگو نہیں ہو سکتے لیکن اس کی حرمت کو دیکھتے ہوئے تعزیری سزا دینا لازمی ہے۔
پہلے سوال کی تفصیلی وضاحت کے بعد عدالت نے دوسرے سوال کا رخ کیا ہے جو کہ زیل ہے :
کیا کسی ایسی مطلقہ بیوی جب کہ وہ ابھی عدت میں ہو تو اس کی بہن یعنی سالی کے ساتھ نکاح کی گنجائش ہے ؟
اس سوال کا جواب عدالت نے طلاق اور اقسام طلاق سے کیا ہے جن میں طلاق احسن ، حسن اور بدعی کا زکر عدالت نے تفصیل کے ساتھ کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ طلاق تب تک تکمیل تک نہیں پہنچتی جب تک عدت مکمل نہ ہو جائے اور اس ضمن میں عدالت نے وفاقی شرعی عدالت کے مشہور زمانہ فیصلے محمد عارف بنام ریاست کا بھی تفصیل کے ساتھ زکر کیا ہے۔
عدالت اس کے بعد موجودہ کیس کی طرف واپس آئ ہے اور لکھا ہے کہ چونکہ مصور پر الزام یہ ہے کہ اس نے بیک وقت دو سگی بہنوں کو نکاح میں رکھا ہے جس کے جواب میں ملزم کا کہنا ہے کہ اس نے اس پہلے حمیرا کو طلاق دی ہے اور اس کے بعد سمیرا کے ساتھ نکاح کیا ہے لیکن چونکہ دوسرا نکاح عدت ختم ہونے سے پہلے ہوا ہے تو اس لئے یہ فاسد ہے اور اس پر فوجداری سزا تعزیر کی شکل میں لاگو ہوتی ہے۔
یاد رہے کہ یہاں پر ایک دلچسپ معاملہ تب آیا جب دوران تفتیش ملزم نے طلاق کی بابت سٹامپ پیپر جمع کرایا جو کہ تفتیش کے دوران جعلی ثابت ہوا تو پولیس نے ایف آئی آر میں دھوکہ دہی وغیرہ کے دفعات بھی شامل کئے۔ یاد رہے کہ ایک تفصیلی بحث کے بعد عدالت نے ملزم کی درخواست ضمانت کو خارج کردیا۔
یہ اہم فیصلہ عدالت عالیہ لاہور کے جسٹس طارق سلیم شیخ صاحب نے لکھا ہے جس کو Crl. Misc. No. 67328/B/2023 پر پڑھا اور دیکھا جا سکتا ہے۔
0 comments:
Post a Comment