تنسیخ نکاح کی یکطرفہ ڈگری کی قانونی و شرعی حیثیت

آج کل اکثر خواتین شوہر کے خلاف تنسیخ نکاح کا کیس کر کے شوہر کا فرضی ایڈریس لکھ کر یا پیادا عدالت سے ملی بھگت کر کے یکطرفہ ڈگری تنسیخ حاصل کر لیتی ہے جب کے شوہر کو اس بات کا علم بھی نہیں ہوتا ۔
لہذا آج ہم تنسیخ نکاح کی یکطرفہ ڈگری کی قانونی و شرعی حثیت کا جائزہ لینگے اور یہ بھی دیکھیں گے کہ اس صورت میں شوہر کے پاس کیا چارہ کار ہے
شریعت میں خلع کے لیے شوہر کی رضا مندی ضروری ہے دوسری بات یے یکطرفہ ڈگری ہے
فیملی کورٹس ایکٹ 1964 کی دفہ 9 (7) کے تحت عدالت یکطرفہ ڈگری کی صورت میں شوہر کے ایڈریس پر ڈگری کی نقل بھیجے گی تاکہ اسے ڈگری کا علم ہو سکے
مزید کوئی بھی پارٹی یکطرفہ ڈگری کی صورت میں مذکورہ قانون کی دفہ 9(6) کے تحت درخواست منسوخی ڈگری گزار سکتی ہے .
جس میں عدالت یکطرفہ ڈگری منسوخ کر سکتی ہے اس کے علاوہ بھی اگر ڈگری یکطرفہ نا بھی ہو تو بھی تنسیخ کی ڈگری ایک طلاق شمار ہوتی ھے .
مذکورہ قانون کی دفہ 21(ب) کے تحت فیملی کورٹ ڈگری کی نقل فریقین کی متعلقہ یونین کونسل میں بھیجے گی جو دونو ن فریقین کے درمیان راضی نامہ کروانے کی کوشش کرے گی ,ناکامی کی صورت مین 90 دن بعد یونین کونسل تنسیخ /طلاق کا سرٹیفکیٹ جاری کرے گی
ہائی کورٹ ملتا ن بینچ نے اپنے ایک حالیہ فیصلہ میں طلاق سرٹیفکیٹ نا ہونے کی بنا پر خاتون کے دوسرے نکاح کو کالعدم قرار دے کر اس کے شوہر کی ضمانت خارج کر دی اور قرار دیا کے صرف تنسیخ نکاح کی ڈگری سے نکاح ختم نہی ہوتا
اس کے علاوہ بھی اگر سرٹیفکیٹ بھی جاری ہو جائے پھر بھی دونو ن کے درمیان کسی بھی وقت راضی نامہ ہوسکتا ہے .مگر دونوں کو دوبارہ نکاح کرنا پرے گا کیو نکہ تنسیخ ڈگری کی صورت میں حلالہ کی ضرورت نہی.
حلالہ صرف شوہر کی طرف سے دی گیی طلاق کی صورت میں ہوتا ہے.
اس اہم قانونی نقطہ پر علی عدالتی نظیر بھی موجود ہیں.
Pld 2013 lah 88
Pld 2014 fsc 43
تاہم مناسب یہ ہے کے اگر تنسیخ نکاح کی ڈگری یکطرفہ بھی ہو گئی ہو اور راضی نامہ ہو جائے تو فیملی کورٹ میں ایک درخواست دے کے اس کو منسوخ کروا لیا جائے .

0 comments:

Post a Comment

Powered by Blogger.

Case Law Search